تہران،25مئی(ایس او نیوزآئی این ایس انڈیا)ایران میں اپنے حقوق کے لیے پرامن طریقے سے صدائیاحتجاج بلند کرنے والے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال اور بیرون ملک ایران نواز ملیشیاؤں کی حمایت کی دوغلی پالیسی پر ایرانی رجیم کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
ایران کے اصلاح پسند حلقوں بالخصوص سبز انقلاب تحریک کے حامی ذرائع ابلاغ نے ایرانی رجیم کی دوغلی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اصلاح پسندوں کے حامی ذرائع ابلاغ کاکہنا ہے کہ ایران ایک طرف بحرین میں مسلح ملیشیاؤں کی حمایت کرکے انہیں حکومت وقت کے خلاف مسلح کارروائیوں کے لیے نہ صرف اکسا رہا ہے بلکہ ان کی بھرپور مالی مدد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف اپنے ملک میں بنیادی حقوق کے لیے پرامن احتجاج کا بھی حق نہیں۔ اگر ایرانی شہری طبقہ اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے پرامن مظاہرہ کرے تو اسے بھی طاقت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔
’سحام نیوز‘ ویب سائیٹ کے مطابق حال ہی میں ’قم‘ شہر میں قائم ایرانی علمی سوسائٹی کی طرف سے بحرین میں شیعہ رہ نما عیسیٰ قاسم کے گھر پر چھاپے اور وہاں سے متعدد اشتہاریوں کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔ ویب سائیٹ نے استفسار کیا ہے کہ قم کی علمی مجلس اگر بحرین میں عیسیٰ قاسم کے گھر پرپولیس کے چھاپے کی مذمت کرتی ہے تو وہ سنہ 2010ء سے نظر بند اصلاح پسند رہ نما مہدی کروبی کے گھر پر بار بار چھاپوں پرکیوں خاموش ہے۔
کیا یہ اس ادارے کی دوغلی پالیسی نہیں۔مہدی کروبی کی جماعت ‘اعتماد ملی‘ کی ویب سائیٹ نے ٹیلی گرام پر ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں مہدی کروبی کی رہائش گاہ پر ایرانی پولیس کی طرف سے مارے جانے والے چھاپے اور ان کے گھر کی بیرونی دیواروں پر ان کے خلاف نعروں کی چاکنگ دکھائی۔ رپورٹ میں ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ مہدی کروبی، میر حسین موسوی اور ان کی اہلیہ زھرا رھنورد 2011ء سے پرامن احتجاج کی پاداش میں ابھی تک اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ایران میں سرکاری سطح پر بھی بحرین میں عیسیٰ قاسم کے گھر پر چھاپے اور وہاں سے اشتہاریوں کی گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ اس کے علاوہ ایرانی شیعہ رہ نما آیت اللہ نوری ھمدانی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ بحرین میں ایوان کی حمایت یافتہ ملیشیا کے خلاف پولیس کے چھاپے قابل مذمت ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایران کے بحرین کے خلاف بیانات اشتعال انگزی ہیں۔ ان کا استفسار ہے کہ ایران دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اپنے ملک میں پرامن احتجاج کرنے والے شہریوں اور اصلاح پسندوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ایرانی سیکیورٹی اور ابلاغی ادارے ملک میں احتجاج کے خلاف فورا مشتعل دکھائی دیتے ہیں۔ جب ایسا کوئی کوئی اقدام دوسرے کسی ملک میں ایران نواز گروپ کے خلاف اٹھایا جائے تو ایران کو انسانی حقوق اور شہری آزادیاں یاد آجاتی ہیں۔ایرانی انسانی حقوق کے مندوبہ ترانہ علی دوستی نے ’تسنیم‘ خبر رساں ایجنسی کی خبر کے رد عمل میں ’ٹویٹ‘ کی کہ بحرین میں شیعہ رہ نما عیسیٰ قاسم کو جبری نظر بند کیا گیا۔ اس پر ایران نیاحتجاج کیا گویا ایرانی حکومت جبری نظر بندی کا معنیٰ نہیں جانتی۔ ان کا اشارہ سبز انقلاب تحریک کے ان رہ نماؤں کی جانب تھا جنہیں ایران نے پرامن احتجاج کی پاداش میں جیلوں میں قید یا گھروں پر نظر بند کر رکھا ہے۔
قبل ازیں ایرانی اپوزیشن کے حامی اور مشہور فلم پروڈیوس محمد نوری زاد نے فیلق القدس کی بحرین میں باغیوں کی حمایت اوراندرون ملک پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ القدس ملیشیا کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کس منہ کے ساتھ بحرینی حکومت مخالف رہ نما عیسیٰ قاسم کی نظر بندی پر تنقید کرتے ہیں جب کہ وہ خود اپنے ملک میں پرامن احتجاج کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی بحرین کی طرف دیکھنے کے بجائے پہلے میر حسین موسوی، مہدی کروبی اور زھرا رھنورد کی نظر بندی ختم کرائیں۔خلیجی ریاست بحرین میں ایرانی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایران اعلانیہ بحرین میں دہشت گردی میں ملوث گروپوں کی مدد کرتا رہا ہے۔
ایرانی پاسداران انقلاب کی طرف سے کئی بار بحرینی باغیوں کو حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی ترغیب دی گئی۔دسمبر 2016ء کے دوران پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف جنرل حسین سلامی نے کہا کہ شام کے شہر حلب کی باغیوں سے آزادی بحرین کی آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا توسیعی پروگرام بحرین اور یمن تک پھیلا ہوا ہے۔ستمبر 2016ء کو ایران کی گارڈین کونسل کے سیکرٹری محسن رضائی نے کہا کہ ایران سعودی عرب کے خلاف جنگ میں پہل نہیں کرے گا تاہم شام ، بحرین اور یمن میں اپنے وفاداروں کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوگا۔ ان ملکوں میں ایران کی حامی قوتوں کی سیاسی، اخلاقی، مادی اور معنوی امداد جاری رکھی جائے گی۔اگست 2016ء کو ایرانی جنرل محمد علی فلکی نے کہا کہ ان کے ملک نے شیعہ فریڈم آرمی کے نام سے ایک نئی فوج تشکیل دی ہے جس کی قیادت جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھ میں ہے۔
اس فوج میں شام، عراق، لبنان، یمن اور دوسرے ملکوں کے شیعہ عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔جون 2016ء کو پاسداران انقلاب کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بحرین میں جاری بغاوت کو آئینی مزاحمت قرار دیا۔ بیان میں بحرین میں بغاوت کے سرغنہ عیسیٰ قاسم کی شہریت منسوخ کرنے کے حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی گئی۔
بحرین میں مسلح گروپوں کی ایران کی طرف سے اعلانیہ حمایت حکومت، عسکری تنظیموں اور پاسدارن انقلاب تک محدود نہیں۔ بحرین میں ایرانی مداخلت سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے براہ راست احکامات کے تحت جاری ہے۔ایرانی سپریم لیڈر کئی بار بحرین کے ایران نواز گروپوں کے رہ نماؤں کی تہران میں ملاقاتیں کرچکے ہیں۔جولائی 2016ء کو باغی شیعہ رہ نما عیسیٰ قاسم کی بحرینی شہریت منسوخ کیے جانے پر خامنہ ای نے بحرین کی عوام کو وہاں کی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر اکسایا۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا کہ عیسیٰ قاسم کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی شہریت منسوخ کرنے سے بحرین میں تشدد کی ایک نئی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔عیسیٰ قاسم کی شہریت کی منسوخی پر ایران کی اشتعال انگیزی کیرد عمل میں منامہ حکومت نے سخت احتجاج کیا۔
منامہ میں متعین ایرانی قائم مقام سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور ایرانی عہدیداروں بالخصوص سپریم لیڈر کی اشتعال انگیز بیان بازی پرانہیں ایک احتجاجی مراسلے دیا گیا۔ اس مراسلے میں واضح کیا گیا کہ ایرانی قیادت بالخصوص سریم لیڈر کے بیانات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی حمایت میں منظور کردہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ایران کے مذہبی شدت پسند عناصر کی طرف سے ایسے فتوے بھی جاری کیے جاتے رہے ہیں جن میں بحرینی عوام کو حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی ترغیب دی جاتی رہی ہے۔